(محمد اسماعیل۔ مخدوم پور)
چند دن پہلے ایک دوست کے ہاں جانا ہوا تو باتوں ہی باتوں میں انہوں نے اپنے ایک دوست کی باتیں سنائیں جنہیں سن کر مجھے بڑی حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ وہ ایمان میں اضافے کا سبب بھی بنی۔ سوچا ایسی ایمان افروز باتوں سے ہر ایک کو مستفید ہونا چاہیے تو حاضر ہے انہی کی زبانی۔
ہم وزٹ ویزے پر جاپان گئے‘ہم نے ادھر سوچا کیوں نہ کسی کو مسلمان ہونے کی دعوت دی جائے؟اسی دوران ہم نے ایک خاتون کو دعوت دی تو وہ کہنے لگی کہ ’’آئی ایم ناٹ! مسلم۔‘‘ تو ہم نے کہا:’’میم! آپ اگرچہ مسلمان نہیں مگر آپ کو حق کی دعوت دینا تو آپ کا بھی حق ہے جو ہم آپ تک پہنچانا چاہتے ہیں۔‘‘تو وہ ہماری بات سننے لگی۔ ہم نے اس کو اسلام کی دعوت دی۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے بارے میں بتلایا کہ وہی ہمیں رزق دیتا ہے۔ اسی ذات نے ہم سب کو پیدا کیا ہے۔ زندگی موت کا وہی مالک ہے۔ ہر چیز پر قادر ہے۔ عزت ذلت اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ پہلے تو وہ ہماری باتیں بڑے ہی غور سے سنتی رہی آخر اس نے کہا:’’دیکھو! آپ کی باتیں مجھے بہت اچھی لگی ہیں۔ میں آپ کا مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ آپ میری بھی چند باتیں سن لیں۔ میں آپ کو بتا دوں کہ میں ایک سکول ٹیچر ہوں۔ کافی عرصے سے سیتارام نامی بت کی پوجا کر رہی ہوں۔ اسی کو اپنا بھگوان اور خدا مانتی ہوں۔ اگر آپ سچے ہیں اور آپ کا دین ہی دین برحق ہے اور آپ کا خدا ہی برحق اور وحدہ لاشریک ہے۔ اس کے علاوہ باقی سب جھوٹے اور باطل معبود ہیں تو پھر میں اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہوں مگر میری ایک شرط ہے۔ اگر میری وہ شرط پوری ہو جائے تو مجھے اسلام قبول کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ نہیں تو پھر ویری سوری!‘‘’’کیا شرط ہے؟‘‘ہم نے پوچھا تو وہ کہنے لگی:
’’دس سال پہلے میرا ایک بیٹا گم ہو گیا تھا اور آج تک اس کا کوئی پتا نہیں چلا۔ میں نے ہر جگہ ڈھونڈ لیا ہے اس کو مگر اس کا کوئی اتاپتا ہی نہیں۔ اب تو میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر بھی تھک چکی ہوں۔ اگر تم، تمہارا خدا اور مذہب اسلام سچا ہے تو آج رات میرا بیٹا واپس آجائے۔ اگر وہ واپس آگیا تو میں مسلمان ہو جائوں گی۔‘‘اس کی یہ عجیب و غریب شرط سن کر ہم حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی۔ بہرحال، ہم نے ہمت نہ ہاری اور اس کو برابر سمجھاتے رہے کہ میم! اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں۔ وہ آپ کے بیٹے کو جس وقت چاہیں واپس لا سکتے ہیں مگر ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی شرطیں لگانا صحیح نہیں۔ خدا تو بے نیاز ہے۔ اس کو ہماری کوئی ضرورت نہیں ہمیں اس کی، اس کی رضا کی ضرورت ہے۔‘‘
ہمارے لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی وہ خاتون بضد ہی رہی کہ نہیں میرا بیٹا واپس آئے گا تو میں اسلام قبول کروں گی ورنہ نہیں۔ آخر تھک ہار کر ہم نے اس کو کہا کہ چلو ایسا کرو کہ پہلے اس بت کو ختم کرو جس کی تم پوجا کرتی ہو۔ اس کے بعد آج کی رات اللہ تعالیٰ سے دل سے یقین کے ساتھ دعا مانگو۔ ان شاء اللہ! اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تمہارا بیٹا واپس آجائے گا۔ ہم نے اس کو سمجھا بجھا کر کسی حد تو مطمئن کر دیا۔ اس رات ہم سب ساتھیوں نے بھی مل کر اللہ تعالیٰ سے اس خاتون کی ہدایت کے لیے دعائیں مانگیں۔ اگلے دن ابھی ہم اشراق پڑھ رہے تھے کہ وہ خاتون ہوٹل میں آگئی۔ اس نے اپنے ساتھ ہم سب ساتھیوں کے لیے اپنے علاقے کا روایتی پرتکلف ناشتہ لیا ہوا تھا اور بہت ہی خوش خوش لگ رہی تھی۔ ہم پھر فکر مند ہو گئے کہ اب اس کو کیسے سمجھائیں گے مگر اس نے آتے ہی ہم سب کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ کے بتائے ہوئے طریقے پر میں نے بت کو اسی وقت اٹھا کرسائیڈ پر رکھ دیا اور دل لگا کرآپ کے اللہ سے مانگا۔ کیا بتائوں تمہیں؟ مجھے تمہارے رب سے مانگنے میں اتنا مزہ آیا اور اتنا قلبی سکون ملا کہ اس سے پہلے اتنا سکون کسی اور جگہ سے کبھی نہیں ملا۔ اسی پرکیف کیفیت میں رات گزرتی گئی اور مجھے پتا ہی نہ چلا۔ میں مانگنے میں اتنی مدہوش تھی کہ مجھے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔ یہ تو مجھے تب پتا چلا جب ڈوربیل بجی۔ میں نے وقت دیکھا رات کے تقریباً چار بج رہے تھے۔ میں نے دروازے کے ہول سے جھانکا تو مجھے اپنی آنکھوںپر یقین ہی نہ آیا۔ میں سمجھی شاید میری آنکھیں دھوکہ کھا رہی ہیں۔ میں نے کیا دیکھا کہ میرا وہی بیٹا جو دس سال پہلے گم ہوگیا تھا گیٹ پر کھڑا تھا۔ مجھے تو یقین ہی نہ ہوا کہ اتنی جلدی میری دعا قبول ہوگئی ہے۔ مجھے لگا شاید میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں۔ میں نے جلدی سے آنکھوں کو مسلا پھر اپنی آنکھیں گیٹ کے ہول پر گاڑ دیں مگر وہ تو واقعی میرا بیٹا ہی تھا۔ میرا لخت جگر تھا۔ جس کی راہیں تکتے ہوئے مجھے تقریباً دس سال ہوگئے تھے، جس کے غم میں رو رو کر میری بینائی کمزور ہوگئی تھی۔ جس کی جدائی میں رونے سے میری آنکھوں کے آنسو بھی ختم ہوگئے تھے۔ میں نے دیوانہ وار گیٹ کھولا اور بیٹے کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ پھر میں ہر چیز کو بھول کر اس کی خدمت میں لگ گئی۔ وہ بہت تھکا ہوا تھا۔ ابھی میں اس کو سلا کر آئی ہوں شام میں آپ کو بھی ملوائوں گی۔ اس خاتون کی یہ باتیں سن کر ہم نے بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری بات کی لاج رکھ لی ورنہ وہ تو بے نیاز ذات ہے۔ ہم نے اس خاتون کا ناشتہ قبول کرلیا اور اس کو پھر اسلام کی دعوت دی کہ اب آپ کو ضرور اسلام قبول کر لینا چاہیے۔ اب تو آپ کو یقین ہو گیا کہ اسلام ہی دین حق ہے اور اسی پر چلنے میں ہی دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے اور اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہیں ان کے علاوہ باقی سب جھوٹ ہے۔’’مگر میری ایک اور شرط بھی ہے۔ اگر وہ پوری ہو گی تو میں یقیناً اسلام قبول کر لوں گی۔‘‘’’اب ایک اور شرط ہے آپ کی؟ یوں شرطیں لگا کر اسلام قبول کرنے کا کہنا مناسب نہیں ہے۔‘‘ہم نے کہا مگر وہ اپنی بات پر ڈٹی رہی۔’’اگر وہ شرط پوری ہو جائے تو پھر میں ضرور مسلمان ہو جائوں گی۔‘‘ ’’اچھا بتائو وہ کیا شرط ہے؟‘‘’’میں کافی عرصے سے بیمار ہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھے بالکل ٹھیک کر دیں۔ میں تندرست ہو جائوں۔ میری آنکھوں کی بینائی بھی مکمل طور پر ٹھیک ہو جائے اور اس کے علاوہ میری تمام بیماریاں بھی ختم ہو جائیں تو میں ضرور اسلام قبول کر لوں گی۔‘‘ہم نے اس کو پھر یہی کہا کہ آپ خود اللہ تعالیٰ سے پھر دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ خیر فرمائیں گے۔ وہ خاتون چلی گئی۔ ہمیں گھومنا پھرنا بھول گیا‘ ہم سب ساتھیوں نے بھی اس خاتون کی ہدایت کے لیے پھر تقریباً ساری رات اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں۔ اگلے دن وہ پھر اشراق کے وقت آئی۔ حسب معمول ناشتہ بھی لائی اور بہت ہی خوش دکھائی دے رہی تھی۔ کہنے لگی کہ میں نے آج رات پھر دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے بالکل ٹھیک کر دیاہے۔ میں بالکل ٹھیک ہو گئی ہوں۔ میری بینائی بالکل ٹھیک ہو گئی ہے۔ دیکھو! دیکھو! میں نے چشمہ بھی نہیں پہنا ہوا۔ مجھے چشمے کے بغیر بھی بالکل ٹھیک نظر آرہا ہے۔ وہ بچوں کی طرح خوش دکھائی دے رہی تھی اور ہاں ایک بات اور آپ کو بتا دوں آج میں کل سے بھی زیادہ خوش ہوں۔ پتا ہے کیوں؟ اس وجہ سے نہیں کہ میرا بیٹا آگیا یا میری بیماریاں اللہ تعالیٰ نے ختم کر دی ہیں بلکہ اس وجہ سے خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے راہ حق سجھا دیا ہے۔ مجھے جہنم کے راستے سے ہٹا کر جنت کے راستے پر چلنے کی توفیق مرحمت فرما دی ہے۔ اگر تم نہ آتے تو پتا نہیں میرا کیا بنتا۔ میں جہنم کا ایندھن بن جاتی یقینا بن جاتی۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے‘ لیکن کاش! آپ تھوڑا اور جلدی آجاتے۔ کچھ عرصہ پہلے مل جاتے تو میری ماں جو میرے ہی بیٹے کے غم میں کافی عرصہ بیمار رہ کر کفر پر ہی مر گئی وہ کفر پر نہ مرتی۔ وہ جہنم کا ایندھن نہ بنتی۔ہم نے اس کو تسلی دی۔ آخر کچھ دیر بعد اس کو صبر آہی گیا۔’’اب مجھے جلدی مسلمان کر دیں۔‘‘ ہم نے اس خاتون کو کلمہ پڑھایا اور باقاعدہ نمازسکھلائی۔ اس کے بعد جتنے بھی دن ہم وہاں رہے وہ خاتون باقاعدگی سے ہمارا کھانا اور ناشتہ لاتی رہی فرائض اور احکامات اسلام سیکھتی رہی۔ ہم جاپان بھی گھومے‘ خوب سیر کی اورساتھ ہی خیر کاکام اللہ نے ہم سے لیا‘ پھر تو اس کے ساتھ اس کا وہ بیٹا بھی ہوتا تھا جو گم ہو گیا تھا۔ اس خاتون نے اپنے اس بیٹے سے ہمارا تعارف بھی کروایا وہ بھی بہت خوش ہوا۔ اس نے بھی کلمہ پڑھ لیا تھا۔ ہم وہاں سے رخصت ہونے لگے تو وہ خاتون اتنا بلک بلک کر روئی جیسے اس سے اس کا کوئی اپنا بہت ہی قریبی بچھڑ رہا ہو۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں